Monday, September 27, 2021

‏Durood e ‎Taj



سارے درود شریف ہی نعت کا درجہ رکھتے ہیں، جس پر بھی غور کرو، لگتا ہے، بس یہی سب سے خوبصورت ہے۔ لیکن درود تاج کے ساتھ کچھ زیادہ ہی احساسات جڑے ہوئے ہیں میرے۔ کبھی کبھی تو کچھ ایسا ردھم سا پیدا ہوتا ہے، کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ کسی کسی جگہ تو ایسے کچھ تار سے جھنجھناتے ہیں، کہ لگتا ہے بندہ صاحب درود تاج سے ملاقات کر آیا ہے۔ اپنی آواز اپنی آواز ہی نہیں لگتی۔ 
بڑا کچھ وابستہ ہے میرا درود تاج سے۔ 
میرا بچپن، میری جوانی، میرا بڑھاپا۔ عمر کا کوئی حصہ درود تاج سے خالی نہیں گزرا۔ زندگی کے اچھے برے دنوں میں درود تاج بھی ساتھ رہا ہے میرے۔ 
سارا بچپن امی نے کوئی نیاز دینی، تو حلوہ پکانا۔ روح کیوڑہ اور گری میوہ ڈال کر۔ امی کے چینی کے برتن تھے ایک دو، کاسنی اور گلابی پھولوں والی پلیٹیں، ان میں امی نے حلوہ ڈال کر والد صاحبؒ کے سامنے رکھ دینا، نئے نئے پونے سے ڈھک کر۔ والد صاحبؒ نے ختم پڑھنا، اور سب بچوں نے بیٹھ کر سننا۔ 
درود تاج کے بہت سے الفاظ مجھے انہی سالوں میں یاد ہو گئے تھے۔ صاحب التاج و المعراج و البراق و العلم۔ دافع البلاء و الوباء و القحط و المرض و الالم۔ سید العرب و العجم۔ صاحب الجود و الکرم، محب الفقراء و الغرباء و المساکین۔ ابی القاسم محمد ابن عبداللہ، نور من نور اللہ، نور من نور اللہ، نور من نور اللہ۔ والد صاحبؒ تین بار دہراتے۔ اور پھر یایہا المشتاقون بنور جمالہ، صلوا علیہ و آلہ۔
پھر زندگی نے صفحہ پلٹا، اور والد صاحبؒ کی جگہ پر میں بیٹھا ختم دے رہا تھا، اور میرے بیوی بچے سن رہے تھے۔ زندگی کے پچھلے بیس بائیس سال اسی میں گزر گئے۔ کچھ دن پہلے تو میں اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا، کہ یار ختم یاد کر لو، اسی طرح سے کوئی نیاز دیتے ہوئے پڑھ لیا کرنا۔ 
باہر کہیں ختم پڑھنا ہو تو درود تاج کے بغیر بھی پڑھ لیتا ہوں، لیکن گھر میں درود تاج ضرور پڑھتا ہوں۔ بہت خوبصورت، بہت محبت بھری نعت ہے۔ 
جسمہ مقدس، معطر، مطہر، منور فی البیت و الحرم۔
آج سے اٹھائیس تیس سال پہلے ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا درود تاج تحفے میں دیا۔ 
”اسے غور سے پڑھو، شمسِ الضحیٰ، بدرِ الدجی، صدرِ العلی، نورِ الہدی، کہفِ الوری، یہ سب زیر سے لکھے ہوئے ہیں، انہیں زیر سے ہی پڑھنا ہے۔ پیش نہیں پڑھنی ان پر“ وہ مسکرا کر بولے۔ 
میں ویسے پیش ہی پڑھتا آیا تھا ان سب پر۔ 
بہرحال، حقیقت تو یہ ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہ القابات پڑھتے ہوئے، پہلے بھی ایک وجد سا آ جایا کرتا تھا، اور اب بھی آ جاتا ہے۔ 
مصباح الظلم، جمیل الشیم، شفیع الامم، صاحب الجود و الکرم، بندہ کون سے لقب سے لطف اندوز نہ ہو، اور کس پر سبحان اللہ نہ کہے۔ 
سید المرسلین، خاتَمِ النبیین، شفیع المذنبین، انیس الغریبین، رحمۃ للعالمین، راحۃ العاشقین، مراد المشتاقین، 
سچ تو یہ ہے کہ ایک ایک لقب پر دل پھڑکتا ہے، راحۃ العاشقین، مراد المشتاقین۔
میں موت کو بڑا آئیڈیلائز کرتا ہوں۔ میں کہتا ہوں، یا اللہ مجھے خوبصورت موت عطا فرمانا۔ 
اور پھر میرے ذہن میں ایک خوبصورت موت کا تصور گھومتا ہے۔ 
میں نے غسل کرنا ہے، نئے کپڑے پہننے ہیں، خوشبو لگانی ہے، سورہ اسری، اور سورہ طہ پڑھنی ہے، زندگی میں میری آئیڈیل سورتیں، اور درود اکبر پڑھنا ہے۔ میں نے جو قرآن شریف ساری زندگی پڑھا ہے، اسے چومنا ہے، اسے چھاتی سے لگانا ہے، میں نے سہ پہر کی ہلکی پھلکی دھوپ چھاؤں میں عصر پڑھنی ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے بہت سی چیزیں یاد آتی ہیں۔ 
وہیں کہیں مجھے ایک سوچ آتی ہے، کہ میں نے درود تاج پڑھنا ہے۔ 
میں سوچتا ہوں مرنے سے پہلے میں نے کیا کیا کام کرنے ہیں، مرنے سے بس چند لمحے پہلے، تو ان میں سے مجھے ایک درود تاج بھی یاد آتا ہے کہیں، کہ مرنے سے پہلے میں نے درود تاج بھی پڑھنا ہے، خوب لطف لے کر۔ میں چاہتا ہوں، مرنے سے پہلے ایک بار، ایک آخری بار، مجھے درود تاج پڑھنے کا موقع مل جائے۔ دنیا میں جن جن چیزوں کو چھوڑ کر جاتے ہوئے، مجھے کچھ دکھ ہو گا، ان میں سے ایک درود تاج بھی ہے۔ کہتے ہیں، درود شریف تو ساتھ ہی جائے گا انسان کے۔ اگر ایسا ہو تو مزہ آ جائے۔ 
سارے ہی درود شریف نعتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعریف و ثنا ہیں، لیکن درود تاج کی کیا ہی بات ہے۔ درود تاج لکھنے والے نے تو کمال ہی کر دیا ہے۔
محبت ہی محبت ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو، سب سے نہیں تو کم از کم کسی ایک درود شریف سے محبت بدرجہ اتم نصیب فرمائے، آمین۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتباس (copied)

No comments:

Post a Comment